ارسطو کا نظریہ آئین ۔۔۔۔ ملک اشفاق

Arstu ka nazariya-e-Aaein.jpg
ارسطو Ù†Û’ اپنے بہترین آئین Ú©Û’ بارے میں جو تاثرات بیان کئے ہیں اس Ú©Û’ بارے میں کہتا ہے کہ افلاطون Ù†Û’ صرف ایک خیالی ریاست کا خاکہ پیش کیا ہے کیونکہ وہ فطرتِ انسان Ú©ÛŒ تکمیل میں یقین رکھتا تھا۔ ارسطو کا خیال ہے کہ فطرت انسانی Ø+دود Ú©Û’ اندر رہ کر ہی مکمل ہو سکتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ اچھے طرزِ Ø+کومت کا خاکہ پیش کرتا ہے ویسے اس بارے میں کہ بہترین آئین یا ریاست کون سی ہے کوئی جواب نہیں دیتا بلکہ اس Ú©Û’ مطابق عوامی Ø+کومت میں آزادی اور دولت کا امتزاج ہوتا ہے۔ آمرانہ طرزِ Ø+کومت میں صرف دولت Ú©ÛŒ پیداوار کا عمل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت میں آزادی اور آمریت میں دولت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ ارسطو خیال ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں بہترین خیالی یا مطلق طرز Ø+کومت Ú©ÛŒ تلاش Ú©ÛŒ جستجو نہیں کرنی چاہیے بلکہ یہ دیکھیں کہ کون سا طرزِ Ø+کومت عملی طور پر اچھا ہے، خاص ماØ+ول اور Ø+الات میں بھی کام کر سکے۔ مثالی ریاست میں مثالی صفات Ú©ÛŒ Ø+کمرانی ہونا ضروری ہے۔ یعنی بہترین لوگوں Ú©Û’ سپرد Ø+کومت کا نظم Ùˆ نسق ہو۔ اگر ایک فرد اچھے اوصاف کا Ø+امل ہے تو طرزِ Ø+کومت بادشاہت بہتر ہے ورنہ خالص جمہوریت طرز Ú©ÛŒ Ø+کومت ہو۔ لیکن ایسا زیادہ عرصہ تک ناممکن ہوگا کیونکہ جمہوریت اور اشرافیہ دونوں روبہ زوال ہو سکتے ہیں جو آمریت Ú©ÛŒ Ø+کومت Ú©ÛŒ بگڑی ہوئی Ø´Ú©Ù„ اختیار کر سکتے ہیں۔
ارسطو کا خیال ہے کہ Ø+الات Ú©Û’ مطابق تیار کیا جانے والاآئین بہترین ہے۔ ارسطو دستور میں اعتدال اور استØ+کام Ú©Û’ اصولوں Ú©Ùˆ اہمیت دیتا ہے۔اس Ú©Û’ نزدیک عوامی Ø+کومت آئین آسانی سے تیار کر سکتی ہے۔ وہ دیگر طرزِØ+کومت Ú©Ùˆ مسترد کر دیتا ہے چونکہ یہ انتہا پسند ہیں۔ مثلاً دولت مندوں Ú©ÛŒ Ø+کومت تکبر اور غرور Ú©ÛŒ وجہ سے Ø+Ú©Ù… عدولی پیدا کرتی ہے۔وہ Ø+کومت جس میں استØ+کام Ùˆ مضبوطی دینے والا عنصر زیادہ طاقت ور ہو اچھی ہے۔ عوامی Ø+کومت ہی اچھا طرزِ Ø+کومت ہے کیونکہ اس میں متوسط طبقے Ú©ÛŒ Ø+کومت قائم ہوتی ہے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ارسطو Ù†Û’ اپنی معاشی پوزیشن Ú©Û’ پیش نظر متوسط گروہ Ú©ÛŒ آزادی Ú©ÛŒ Ø+مایت Ú©ÛŒ ہو جس Ú©ÛŒ وجہ سے وہ اسی طبقہ Ú©ÛŒ Ø+کومت Ú©Ùˆ طاقت ور تصور کرتا ہے۔ اس Ú©Û’ خیال میں یہی Ø+کومت اچھی ہے کیونکہ اس کا دستور ملا جلا ہوتا ہے اس لیے یہ متوازن اور مستØ+Ú©Ù… ہو جاتا ہے۔ ایسا قانونِ امارت اور غربت، دولت مندوں Ú©ÛŒ Ø+کومت اور جمہوریت، کیفیت اور کمیت اور پیدائش اور تعداد Ú©Û’ مختلف عوامل Ú©ÛŒ آمیزش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درمیانہ درجہ Ú©ÛŒ Ø+کومت میں اتنے زیادہ لوگ Ø+صہ دار ہوتے ہیں کہ دستور Ú©Ùˆ عوامی Ø+مایت Ø+اصل ہو جاتی ہے اور اس طرØ+ جمہوری طرزِ Ø+کومت Ú©ÛŒ خامیوں Ú©Ùˆ نظر انداز کیا جاتا ہے کیونکہ یہ لوگ انقلاب نہیں لانا چاہتے۔ یہ دستوری طرزِ Ø+کومت ہوتی ہے اور قانون ہی Ú©ÛŒ Ø+کمرانی ہوتی ہے اور سب گروہوں Ú©Ùˆ اس کا پورا پورا Ø+Ù‚ ملتا ہے۔
''جارج ایچ سلیبائن‘‘ لکھتا ہے کہ آئین سازی اور قانون سازی میں بہت فرق ہے اور اس فرق Ú©Ùˆ ارسطو Ù†Û’ اپنی تصنیف ''سیاسیات‘‘ Ú©ÛŒ جلد چہارم میں بڑی وضاØ+ت سے بیان کیا ہے۔ اس Ú©Û’ خیال میں ہر دستور Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ درØ+قیقت اس بات پر منØ+صر ہوتی ہے کہ ریاست Ú©Û’ مختلف معاشرتی گروہوں Ú©Ùˆ Ø+کومتی اقتدار Ùˆ اختیار میں کس قدر Ø+صہ نصیب ہوا ہے۔ کسی بھی ریاست کا اچھا آئین وہ ہے جو اپنی نوعیت Ú©Û’ Ù„Ø+اظ سے مثالی اور دیرپاہو۔ ایک ملک میں جو آئین بنے اس میں اس قدر جامعیت اور پختگی ہو کہ اس Ú©Û’ نفاذ Ú©Û’ دوسرے ہی روز اس Ú©ÛŒ ترامیم Ú©ÛŒ تØ+ریکیں نہ شروع ہو جائیں۔ اس Ú©Û’ نزدیک بہترین طرزِØ+کومت ''دستوری Ø+کومت‘‘ ہے جس میں عوام Ú©Ùˆ Ø+قِ شمولیت بھی Ø+اصل ہے اور طبقاتی نفرت Ú©Ùˆ بھی ہوا نہیں ملتی۔
دستور سازی Ú©Û’ وقت ہر Ø+کومت کا فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ اس کا نفاذ ملک Ùˆ معاشرہ Ú©ÛŒ بہتری کا ضامن ہوگا یا اس Ú©Û’ نافذ کرنے سے سیاسی بØ+ران پیدا ہوگا۔ اگر اس کا اعلان صØ+ÛŒØ+ طور پر نہ ہو سکے تو یہ دستور سازی Ú©ÛŒ زبردست ناکامی ہے۔ دستور سازی Ú©Û’ بغیر کوئی ملک Ú†Ù„ ہی نہیں سکتا۔ یہاں تک کہ استبدادیت بھی اپنے نظام Ú©Ùˆ چلانے کیلئے چند ایک اصول مرتب کرتی ہے تاہم ایک اچھے دستور میں مندرجہ ذیل بنیادی امور لازمی ہونا چاہئیں۔ کیونکہ ملکی مسائل ان امور سے ہی پیدا ہوتے ہیں اور انہی مسائل سے Ø+Ù„ کئے جاتے ہیں۔
آبادی: ارسطو Ú©Û’ خیال میں ہر شہر میں معقول آبادی ہونی چاہیے تاکہ وہاں سے مناسب تعداد میں نمائندوں Ú©Ùˆ منتخب کرکے Ø+کمران جماعت میں شامل کیا جا سکے۔
عوام کا کردار: کسی بھی ملک Ú©ÛŒ عظمت کا انØ+صار دوسری باتوں Ú©Û’ علاوہ اس ملک میں بسنے والی قوم Ú©Û’ کردار پر بھی ہے۔ شرافت، دیانت، ہمت، صبر اور صداقت ان کا اصول ہونا چاہیے اور بہادری Ú©Û’ ذریعے دشمن Ú©Û’ دانت Ú©Ú¾Ù¹Û’ کرنے Ú©ÛŒ صلاØ+یت ہونی چاہیے تاکہ جنگ Ú©Û’ دوران فوجوں میں ہمت قائم رہے اور دشمن Ú©Ùˆ ایک مضبوط چٹان Ú©Û’ ساتھ ٹکر لینے کا ایسا اØ+ساس ہو جائے کہ پھر کبھی ادھر کا رخ نہ کرے۔
طبقاتی تقسیم: انتظامِ Ø+کومت چلانے کیلئے اور ریاست Ú©Ùˆ خود کفیل بنانے کیلئے معاشرے Ú©ÛŒ طبقاتی تقسیم ضروری ہے۔ جس میں فنکار، دستکار، صنعتکار، تاجر، زمیندار، منتظمین، امراء، شرفاء اور مذہبی رہنمائوں Ú©Û’ علاوہ فوجی طبقہ بالخصوص توجہ Ú©Û’ لائق ہونا چاہیے کیونکہ موخر الذکر طبقہ ملک Ú©ÛŒ سلامتی Ùˆ استØ+کام میں سب سے نمایاں کردار انجام دیتا ہے۔
تعلیم: ارسطو Ú©Û’ نزدیک جسمانی Ùˆ ذہنی تعلیم Ùˆ تربیت ہر ریاست کا ایک لازمی جزو ہے۔ اس Ú©Û’ بغیر نہ تو معاشرہ ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی ریاست اور نہ ہی ایک اچھا قانون تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ ارسطو یکساں لازمی عوامی تعلیم کا نظام قائم کرتا ہے۔ یہ تعلیم فرصت Ú©Û’ اوقات رکھنے والے طبقات Ø+اصل کرتے ہیں کیونکہ وہ عمل سے زیادہ ثقافتی خوبیوں Ú©Û’ مالک ہوتے ہیں۔